عقیل نے 2007 میں لمز میں اپنی بی ایس سی آنرز کی ڈگری شروع کی۔ وہ لمز کو کریڈٹ دیتے ہوۓ کہتے ہیں کہ لمز نے نئے مواقع تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ ان سے فائدہ اٹھانے کے لیے سرگرم ہونا سکھایا۔ان خصلتوں نے بعد میں عقیل کو جسٹس پروجیکٹ، پاکستان (جے پی پی) میں قانونی ایسوسی ایٹ کے طور پر کام کرنے میں مدد کی جو اندرون اور بیرون ملک انتہائی غریب پاکستانی قیدیوں کے حقوق کیلئے آواز اٹھاتاہے۔یہ پروجیکٹ لاہور میں ایک غیر منافع بخش، انسانی حقوق کی قانونی فرم کے طور پر قائم کیا گیا ہے۔ یہ سزائے موت کا سامنا کرنے والے قیدیوں، پولیس تشدد کا شکارافراد ، ذہنی طور پر مفلوج یا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں متاثر ہونے والے قیدیوں کو قانونی مشورے اور تفتیشی خدمات فراہم کرتی ہے۔
"میں خیبر پختونخوا کےضلع صوابی کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے بہت طویل فاصلہ طے کر آیا ہوں۔ میرے خیال میں، میرا مقصد یہاں پہنچنا تھا اور اس دنیا کو ایک بہتر جگہ بنانے میں اپنا کردار ادا کرنا تھا۔ ایک وکیل کے طور پر، میں اپنے قانونی نظام میں بنیادی طور پر اصلاحات کے لیے کام کرنا چاہتا ہوں۔ اپنی گریجویشن سے تین ماہ قبل، میں نے جسٹس پروجیکٹ پاکستان کے ساتھ کام کرنا شروع کیا جو کہ ہمارے عدلیہ کے نظام میں سب سے کمزور قیدیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی انسانی حقوق کی ایک حامی فرم ہے۔ میں اب بھی یہاں ایک لیگل ایسوسی ایٹ کے طور پر کام کر رہا ہوں اور ہر ممکن طریقے سے لوگوں کی خدمت کرتا رہوں گا۔
عقیل کے اندر اپنے آس پاس کے لوگوں کی مدد کرنے کی خواہش اس کے اپنے بے رحم پس منظر سے پیدا ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ لمز میں آنے سے پہلے، اس نے اپنے مالی معاملات کیلئے سخت جدوجہد کی۔ کئی دن ایسے تھے جب اس کے پاس اتنی رقم بھی نہیں تھی کہ وہ خود کھانا خرید سکے اور اپنے کھانے پینے کے اخراجات کو پورا کرنے کیلئےعقیل کو اپنے دوستوں پر انحصار کرنا پڑا۔ بعد میں عقیل نے اپنے مالی معاملات کو بہتر بنانے کے لیے کیمپس میں ملازمت شروع کر دی۔ تاہم، عقیل کا کہنا ہے کہ NOPاسکالرشپ نے ان کی زندگی کا رخ موڑ دیا اور یونیورسٹی کے ماہرین تعلیم نے ان کے سامنے ایک نئی دنیا متعارف کروائی۔
"مختلف شعبوں کے کورسزپڑھ کر ، لمز نے میرے سوچنے کا انداز بدل دیا۔سب سے پہلے لمز نے مجھے یہ احساس دلایا کہ ہر تصویر کے ایک سے زیادہ رخ ہوتے ہیں اور ضروری نہیں کہ میری تصویر کا رخ درست ہو۔ اس کے نتیجے میں مجھے یہ سمجھنے میں مدد ملی کہ میرے سے مختلف عقائد اور نظریات رکھنے والے لوگ بھی درست ہو سکتے ہیں اور ان کا احترام کیا جانا چاہیے۔ اپنے دوسرے تعلیمی سال میں، مختلف ثقافتوں اور علمی شعبوں سے اپنی ناواقفیت کا احساس کرنے کے بعد، میں نے پڑھنے میں دلچسپی پیدا کی، جس نے میری رائے کے مطابق مجھے لوگوں کو سمجھنے اور ان کے ساتھ ہمدردی پیدا کرنے میں میری مدد کی ہے۔"
عقیل کے بہترین تعلیمی ریکارڈ نے اسے 2013 میں امریکی محکمہ خارجہ کے زیر اہتمام گلوبل انڈر گریجویٹ پروگرام (یو گریڈ) میں شرکت کے لیے اہل بنایا۔ اس پروگرام کے دوران وہ تعلیم کے بین الاقوامی معیارات سے روشناس ہوا اور وہاں موجود لمز کے ساتھی طلبا کے ساتھ لازوال تعلقات قائم کیے۔
عقیل کا خیال ہے کہ اس کی لگن اور متجسس فطرت نے اسے اس مقام تک پہنچنے میں سب سے اہم کردار ادا کیا ہے جہاں وہ آج ہے۔ وہ کہتے ہیں "میں بہت سوال کرتا ہوں اور باقی سب کو بھی کرنا چاہیے۔" وہ محسوس کرتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کو تبدیل کرنے میں کامیاب رہا ہے اور مستقبل کے لیے بڑی خواہشات رکھتا ہے۔
"کیون اسپیس نے ایک بار کہا تھا کہ اگر آپ جس کاروبار میں بھی ہیں اور اس میں آپ نے اچھا کام کیا ہے، تو یہ آپ کا فرض ہے کہ کامیابی کی کنجی کو واپس نیچے بھیجیں اور اگلی نسل کے غیر دریافت شدہ ٹیلنٹ کو سامنے لانے کی کوشش کریں۔ مجھے امید ہے کہ میں بھی ایسا ہی کروں گا"